اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں سینکڑوں فلسطین نواز مظاہرین نے وزیرِاعظم کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، جہاں انہوں نے اسرائیل کی جانب سے بار بار آتشبس کی خلاف ورزیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ “غزہ میں جنگ بندی صرف اس وقت برقرار رہتی ہے جب اسرائیل چاہے، اور جب وہ چاہے اسے توڑ دیتا ہے۔”
شرکاء نے فلسطینی پرچموں اور اسرائیل مخالف بینرز کے ساتھ مارچ کیا اور مطالبہ کیا کہ برطانوی حکومت اسرائیل پر اسلحہ پابندی (arms embargo) عائد کرے تاکہ غزہ میں بے گناہ شہریوں کا خون بہنا بند ہو۔
مظاہرین میں شامل انسانی حقوق کی کارکن جنیفر موریس نے ایرنا سے گفتگو میں کہا،ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کیونکہ ہم غزہ کے بچوں کی تکالیف مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ برطانیہ کو چاہیے کہ اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنا بند کرے۔ یہ خاموشی، دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔اسی طرح، خاورمیانہ امور کی محقق سوزان کلارک نے کہا کہ برطانیہ میں عوامی رائے بدل رہی ہے اور اب اسرائیل کی بلا شرط حمایت قابلِ قبول نہیں رہی۔
اگر وزیرِاعظم استارمر انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں سیاسی مصلحت اور اخلاقی ذمہ داری میں سے ایک راستہ چننا ہوگا۔فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی فوج نے گزشتہ منگل کو رفح میں مبینہ فائرنگ کے واقعے کو جواز بنا کر غزہ پر دوبارہ شدید حملے شروع کیے۔
 غزہ کی سرکاری اطلاعاتی دفتر کے مطابق، آتشبس معاہدے کے بعد سے اسرائیل نے 125 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں 94 فلسطینی شہید اور 344 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق، اس دوران 52 فائرنگ کے واقعات، 55 فضائی و توپخانہ حملے، 9 زمینی دراندازیاں اور 11 شہری عمارتوں کی تباہی کی گئی۔فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 68 ہزار 500 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز برطانوی پارلیمان میں بھی غزہ کی بگڑتی صورتحال پر بحث ہوئی، جہاں متعدد ارکان نے اسرائیل پر آتشبس کی پاسداری کے لیے دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔وزیرِاعظم استارمر نے بھی انسانی المیے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر جنگ بندی کے احترام اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
دوسری جانب، برطانیہ کے نائب وزیرِ خارجہ ہیمِش فالکونر نے پارلیمان میں کہا،ہماری فوری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ امدادی سامان کسی رکاوٹ کے بغیر غزہ پہنچے۔ اسرائیل کو چاہیے کہ اپنی پابندیاں ختم کرے اور بین الاقوامی تنظیموں کو وہاں کام کرنے کی اجازت دے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، برطانوی حکومت کی اسرائیل کے خلاف خاموشی اب عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہو چکی ہے۔اگر لندن نے اپنی پالیسی میں تبدیلی نہ کی، تو یہ روش وزیرِاعظم استارمر کی حکومت کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، جو پہلے ہی داخلی بحرانوں سے دوچار ہے۔
 
             
             
                                         
                                         
                                         
                                        
آپ کا تبصرہ